کہانی (زیروپوائنٹ9) ۔۔۔۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں چار لڑکے رہتے تھے. وہ چاروں آپس میں اچھے دوست تھے. سب پڑھے لکھے تھے، لیکن ان میں سے طاہر ان پڑھ تھا مگر اس میں ایک خوبی تھی کہ وہ عام فہم کی چیزوں کے بارے میں علم رکھتا تھا
ایک دن ایسا آیا جب تین دوستوں نے دور دراز کے شہروں اور دیہاتوں میں نوکریوں کی تلاش میں جانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے علم کی بدولت مالی فائدہ چاہتے تھے۔ بہر حال، کتابوں اور علوم میں اتنا سیکھنے کا کوئی فائدہ نہیں تھا اگر انھوں نے اس سے کچھ شعور حاصل نہ کیا ہو تو ۔ تینوں دوستوں نے طاہر کو اس کے ان پڑھ ہونے کی وجہ سے ساتھ نہیں لے جانا چاہا لیکن چونکہ وہ بچپن کا پرانا دوست تھا اس لیے انھوں نے اسے بھی مدعو کرنے کا فیصلہ کیا۔
چاروں دوست ایک طویل سفر پر نکلے، پیسے کمانے کے راستے کی تلاش میں ایک شہر سے دوسرے شہر جاتے رہے۔ ایک دن ایک گھنے جنگل سے گزرتے ہوئے انہیں ایک درخت کے نیچے ہڈیوں کا ایک ڈھیر پڑا ہوا ملا۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ اپنی صلاحیتوں کو ظاہر کرنے کا ایک اچھا موقع سامنے موجود ہے ۔
پہلے دوست نے اپنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے ہڈیوں کو ایک ڈھانچے کی شکل میں بدل دیا ۔ جب ڈھانچا تیار ہو گیا تو دوسرے دوست نے ایک منتر پڑھا، جس سےڈھانچے پر گوشت اور کھال چڑھ گیا ۔ یہ ایک بے جان شیر لگ رہا تھا۔ جیسے ہی تیسرا دوست شیر کو زندہ کر کے تماشہ کو ختم کرنے ہی والا تھا کہ چوتھے دوست نے اسے روک دیا۔ طاہر کو معلوم تھا کہ ایک باریہ خونخوار شیر کو دوبارہ زندہ کر دیا گیا تو وہ انہیں نہیں بخشے گا۔
چالاک بندر اور احسان فراموش مگرمچھ
تاہم، تیسرے دوست نے اس کے مشورے کو نظر اندازکر دیا ، اس کا مذاق اڑایا اور خود کو مصیبت میں ڈالنے کےلیے تیار ہو گیا ، جو واضح طور پر ایک برا فیصلہ تھا۔ طاہر جلدی سے اپنے آپ کو بچانے کے لیے قریب کے ایک درخت پر چڑھ گیا .تیسرے دوست نے منتر پڑھ کر شیر پر پھونکا تو شیر زندہ ہو گیا ۔ جیسا کہ چوتھے دوست نے کہا تھااسی طرح ، شیر نے تینوں متکبر دوستوں کو مار ڈالا جب کہ طاہر زندہ بچ کر گاؤں واپس چلا گیا۔
اخلاقی سبق : شعور کے بغیر علم کا کوئی فائدہ نہیں ہے .