شاعری سیکشن(زیروپوائنٹ9)۔۔۔جو لوگ دشمنِ جاں تھے، وہی سہارے تھے۔۔
جو لوگ دشمنِ جاں تھے، وہی سہارے تھے منافع تھے محبت میں، نَے خسارے تھے
یہ عشق تھا کہ فقط عشق جس کا مسئلہ تھا اس امتحان میں سجدے نہ استخارے تھے
جو لوگ ترک طلب پر بضد تھے، ان کےلیے جہاں رکے تھے سفینے، وہیں کنارے تھے
خود اپنا آپ گنوا کر جنھیں خدا نا ملا وہ تیرگی کے نہیں روشنی کے مارے تھے
حضور شاہ، بس اتنا ہی عرض کرنا ہے جو اختیار تمہارے تھے، وہی حق ہمارے تھے
یہ اور بات کہ بہاریں گریزِ پا نکلیں گلوں کے ہم نے تو صدقے بہت اتارے تھے
خدا کرے کہ تری عمر میں گنے جائیں و ہ دن جو ہم نے ترے ہجر میں گزارے تھے
اب اذن ہو تو تری زلف میں پرو دیں پھول کہ آسماںکے ستارے تو استعارے تھے
قریب آئے تو ہر گل تھا خانہء زنبور ندیم دور کے منظر تو پیارے پیارے تھے